ایک مرتبہ پھر دلچسپ حالات پاکستان کے درپے ہیں ۔ مسلے کی نوعیت سمجھنے کے لیے تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہوگا ۔ آزاد پاکستان کوانگریز دور میں قائم شدہ سول اور فوجی ادارے وراثت میں مل گئے۔ ان کے برعکس سیاسی طبقہ کمزور تھا۔ سول اور فوجی گٹھ جوڑ نے ملک پر 1971 ء تک حکومت کی ۔ اُس سانحے نے اس ٹولے کی ساکھ مجروع کردی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کو پیچھے ہٹا یا۔ سول سروس کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی سیاسی منشا کے تابع کرلیا۔
تاہم فوج نے 1980 ء کی دہائی میں جوابی وار کیا اور جنرل ضیا الحق کے مارشل کی صورت اقتدار، سیاست، معیشت اور معاشرے پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ضیا نے مقامی حکومتوں کے قیا م اور مجلس شوریٰ میں نامزدگیوں ذریعے فوج کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دانوں کی پرورش کی ۔ سول بیوروکریسی میں فوجی سروس کا کوٹہ رکھااور آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ریاست اور معاشرے پر اسلامی رنگ چڑھا دیا ۔ اس دوران افغانستان میں ایک عشرہ طویل جہاد نے فوج کے مخصوص رجحانات کو تقویت دی ۔ اس طرح اسٹبلشمنٹ وجود میں آئی۔
جنرل ضیاالحق کی حادثاتی موت کے بعد 1988 ء میں بے نظیر بھٹو نے ریاست اور معاشرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ۔ دوسال بعد 1990 ء میں اسٹبلشمنٹ نے اُنہیں اقتدار سے چلتا کیا اور اپنی نرسری میں پلے ہوئے سیاست دان، نواز شریف کو اُن کی جگہ لا بٹھایا ۔ لیکن جب نواز شریف نے ”ڈکٹیشن“ لینے سے انکار کرتے ہوئے سیاسی آزادی حاصل کرنا چاہی تو 1993 ء میں اُن کی چھٹی کرادی گئی ۔ بے نظیر کو مناسب حد تک مطیع کرکے دوسراموقع دیا گیا ۔ لیکن جب محترمہ نے پر پرزنے نکالے تو 1996 ء میں اُ ن کی حکومت ختم کردی گئی ۔ پھر نوازشریف کو دوسری باری دی گئی ۔ لیکن جب اُنھوں نے ڈکٹیشن لینے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرتے ہوئے حکم چلانا چاہا تو اسٹبلشمنٹ کو تاؤ آگیا ۔ نوازشریف کو اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیا، اور پھرجلا وطن کردیا گیا۔
2000ء کی دہائی میں جب جنرل مشرف نے امریکی اور برطانوی دباؤ کے تحت بھارت کے ساتھ کشمیر کا معاملہ ”طے“ کرنے کی کوشش کی تو اُنہیں قائل کیا گیا کہ وہ مقبول سیاسی رہنما، بے نظیر بھٹو کو سیاسی جگہ دیں کیونکہ بے نظیر بھٹو بھی کشمیر پر یہی کچھ چاہتی تھیں۔ لیکن پھر ایک سیماب صفت جج، افتخار محمد چوہدری، جنہیں اسی اسٹبلشمنٹ نے چیف جسٹس بنوایا تھا، نے بھی ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے عدلیہ کی بحالی کی ایک عوامی تحریک چلی۔
اس نے بے نظیر بھٹو کو حسا ب برابر کرنے کا موقع دے دیا ۔ اس سے پہلے اُنھوں نے مشرف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کے دوران پاکستان سے باہر ٹھہریں گی، لیکن اُنھوں نے موقع غنیمت جان کر واپسی کا اعلان کردیا ۔ یہاں اُن کا ہنگامہ خیز استقبال ہوا ۔ نوازشریف نے اس استقبال کو مشرف کے خلاف عوامی ریفرنڈم سے تعبیر کیا ۔ اُنھوں نے سوچا کہ ملک جمہوریت اورعوامی حکومت کے لیے پکاررہا ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے بھی اپنے جلاوطنی کے معاہدے کو ایک طرف رکھا اور وطن واپس آگئے۔ اسٹبلشمنٹ کو اپنا مستقبل غیر یقینی دکھائی دے رہاتھا ۔ اکتوبر 2007 ء کو بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا ۔ نومبر میں جنرل مشرف ریٹائر ہوئے اور جنرل اشفاق کیانی چیف آف آرمی سٹاف بن گئے۔ اب اسٹبلشمنٹ مشرف کو منظر نامے سے ہٹاناچاہتی تھی کیونکہ وہ ایک پٹے ہوئے مہرے کی طرح تھے۔
نواز شریف کی مدد سے جنرل کیانی نے صدر زداری پر افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ۔ اسٹبلشمنٹ کے تحفظات کے باوجود صدر زرداری نے 2010 ء میں اٹھارویں ترمیم منظور کرالی۔ اس ترمیم نے سیاسی معیشت پر مرکز کی مضبوط گرفت ڈھیلی کردی،نیز دفاعی اخراجات کے لیے وفاقی کا ہاتھ تنگ ہوگیا ۔ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی نے اسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا۔چنانچہ اسٹبلشمنٹ نے عوامی تنقید کی توجہ بٹانے کے لیے نواز شریف اور جسٹس چوہدری کو پی پی پی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے شہ دی۔
اس طرح میمو گیٹ سامنے آیا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی چھٹی ہوگئی ۔ 2013 ء میں نواز شریف کو ایک تیسرا موقع اس لیے دیا گیا کیونکہ اسٹبلشمنٹ کے سامنے کوئی اور محفوظ سیاسی آپشن نہیں تھا ۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف نے مشرف کو غداری کیس میں سزا دلانا چاہی ۔ اسٹبلشمنٹ نے اس جسارت کو اپنی توہین اور سول بالادستی کی کوشش سمجھا ۔ چنانچہ ”ڈان لیکس“ اچھالی گئیں ۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے 2013 ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر 2014 ء میں دھرنا دے دیا۔ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی مہم شروع ہوگئی۔ پانامالیکس نے اسٹبلشمنٹ کو عدلیہ کی مدد سے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر سزا دینے کے قابل بنا دیا ۔ اس کے بعد 2018ء کے انتخابات کے دوران آرٹی ایس میں پراسرار خرابی پیدا کرکے مرضی کے نتائج حاصل کرلیے گئے۔ اس طرح عمران خان اقتدار میں آگئے۔ جب زخم خوردہ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ نو ن نے احتجاج کیا تو اس پر نیب کوچھوڑ دیاگیا ۔
اس وقت عوامی جذبات کا دھارا عمران خان کے خلاف بہہ رہاہے۔ وہ اب تک حکومت چلانے کے لیے نااہل ثابت ہوچکے ہیں ۔ جس وقت ریاست کو ایک سیاسی رہنما کی ضرورت تھی، وہ مسلسل غلطیاں کررہے ہیں۔ تمام خرابیوں پر الزام اسٹبلشمنٹ پر جاتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ عمران خان بھی وقتاً فوقتاً پر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عہدہ عوامی مقبولیت سے منتخب شدہ رہنما کاہے۔ اس سیٹ پر بیٹھتے ہی یہ احساس گہرا ہونے لگتا ہے کہ اس دفتر کو اسٹبلشمنٹ کے اثر سے پاک ہونا چاہیے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنا اختیار کھونا پسند نہیں کرتی۔
بظاہر تو عمران خان اور اسٹبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہیں کیونکہ دونوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ دونوں کو کوئی حلیف دستیاب نہیں۔ اپنے عہدے کو حاصل اختیار کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کے دو اعلیٰ ترین افسران کی قسمت وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ چنانچہ توقع ہے کہ اسٹبلشمنٹ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے معاملات کو طے ہوتا دیکھے گی۔ اگر ایسانہ ہوا تو پھر ہم کسی بھی بڑے ایشو پر عوامی طوفا ن کھڑا ہوتا دیکھیں گے۔اس صورت میں ”قومی مفاد“ میں کوئی قربانی کا بکرا درکار ہوگا۔