نواز شریف نے کشتیاں جلاتے ہوئے وہ بات بلند ترین لہجے میں کہہ ڈالی جو کبھی زیر لب بھی احتیاط سے کی جاتی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ”ریاست سے بلند ریاست“ بن چکی ہے، چیئرمین نیب اپوزیشن کی سرکوبی کررہے ہیں، الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی، ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کے جج دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں؛ ایف آئی اے، ایس ای سی پی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کررہی ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خودکش اقدام ہے؛ کچھ دیگر اسے تخت یا تختہ والی صورت حال قرار دیتے ہیں کیوں کہ نواز شریف کو غیر منصفانہ طور پر اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیاتھا۔ اب اُ ن کے سامنے لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔بہت سوں کو یقین ہے کہ وہ اپنے یا اپنی جماعت کے لیے کچھ سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، یہ پاکستان میں سیاسی ارتقاع کا تاریخ ساز لمحہ ہے۔ کمرے میں موجود ہاتھی کی آخرکارشناخت ہوچکی۔ پتہ چل چکا کہ وہ مسلے کی وجہ، نہ کہ اس کا حل ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل حزب اختلا ف کی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کے لیے احتجاج کا اعلان کردیا۔ حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔اب وہ مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔
لیکن نواز شریف لندن میں محفوظ مقام سے میڈیا کے ذریعے جارحانہ لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن بھی ملین مارچ کے لیے کمر کس رہے ہیں۔ چنانچہ سیاسی میدان پر عدم استحکام اور غیر یقینی پن کی گرد گہر ی ہوتی جارہی ہے۔ معیشت کم و بیش ٹھکانے لگ چکی؛ آئی ایم ایف اپنے بیگ تیار کررہا ہے؛ مشرقی سرحد پرنریندر مودی آگ برسا رہا ہے تو مغربی سرحد پر تحریک طالبان پاکستان فاٹا میں اپنی سرگرمیاں تیز کر رہی ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔
خیر یہ تمام پیش رفت پاکستانیوں کے لیے نئی بات نہیں۔ منتخب شدہ جمہوری حکومتوں کو غیر منصفانہ طریقے سے قبل از وقت چلتا کردیا جاتا ہے۔ اکثر انتخابات دھاندلی زدہ ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی بحالی کے چلنے والی تحریکیں اور لانگ مارچ ہمارے سیاسی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ جو چیز اس مرتبہ نئی ہوئی، وہ اسٹبلشمنٹ کے دامن کا داغدار ہونا ہے۔اس وقت سب سے زیادہ کیچڑ اُسی پر اچھالا گیا ہے۔ چونکہ گزشتہ سات دھائیوں سے مقدس گائے ملکی سیاست میں طاقت ور ترین عامل ہے، اس لیے موجودہ پیش رفت نے اسے ناقابل یقین حد تک زک پہنچائی ہے۔
بدقسمتی سے یہ پریشان کن شک اپنی جگہ پر موجود ہے کہ سول ملٹری دھڑے نے محض مفاد پرستی کے لیے ایک اہم قومی ادارے کو بدنام کردیا ہے۔ اس سے معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ سابق اسٹبلشمنٹ نے پرتشویش بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی احتساب اور جانچ کے عمل سے ماورا سمجھنے جانے والے یاستی ادارے اور اس کے غیر منتخب شدہ باس بے نقاب ہوتے ہیں تو اس کا شکار ہونے والے منتخب شدہ ”بدعنوان“ سیاست دان اپنا قانونی اور جمہوری جواز تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔
اسٹبلشمنٹ کے لیڈران کو خود کو ہی مورد الزام ٹھہرانا چاہیے کہ اُنھوں نے ہمہ گیر مقدس گائے کو بدنام کراڈالا۔ اس کا سلسلہ چند سال پہلے چند سال شروع ہوا تھا جب سلگتے ہوئے ٹویٹ پیغامات کے ذریعے، اور ”ڈان لیکس“ پر ن لیگ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ اب یہ اتنی گرچکی ہے کہ شیخ رشید اس کے حزب اختلاف کے سیاست دانوں سے ملاقات کے راز فاش کررہا ہے۔ اس دوران وہ بھول گیا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سرکاری ترجمانوں کے میدان میں کودنے سے معاملات مزید خراب ہو گئے۔ اس سے گھیرے میں آئے ہوئے سیاست دانوں کو کھل کر بات کرنا پڑی۔ تنہائی میں ہونے والی باتیں، وعدے اور تعصبات بھی سامنے آگئے۔ پتہ چلا کہ اس حمام میں ہر کسی کا ایک سا حال ہے۔ ہر کوئی اپنے گندے کپڑے سربازار دھورہا ہے۔ اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی۔
اپنی پارسائی کے زعم میں ڈوبے تحریک انصاف کے ترجمان نوازشریف پر توپوں کے دہانے واکیے ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے پاکستان واپس آنے کے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسٹبلشمنٹ نواز شریف کے لیے دھمکی اور ترغیب، دونوں آپشنز رکھتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے میڈیا میں موجود حامی نوا زشریف کو طعنے دیتے ہوئے وطن واپس آکر مردوں کی طرح سول بالا دستی جنگ لڑنے کے لیے اکسار ہے ہیں۔ نوا زشریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ججوں اور حکومت نے خود اُنہیں باہر بھیجا تھا۔ اسٹبلشمنٹ اُن سے کیے گئے وعدوں سے پھر چکی ہے۔ اب نوا زشریف کے پاس اپنے کروڑوں حامیوں کی وفاداری پر بھروسہ کرنے کے سواکوئی آپشن باقی نہیں۔ ان کے حامیوں کویقین ہے کہ اُن کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ کیوں نہ جلاوطنی کی حفاظت استعمال کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے رہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے رہنما ایسا کرچکے ہیں۔
بلاشبہ پی ڈی ایم کے لیے بھرپور تحریک چلا کر عمران خان کو چلتا کرنا مشکل ہوگا کیونکہ ریاست کے تمام عناصر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم میں بہت کمزور ذاتی، سیاسی اور تنظیمی سطح پر تعلقات ہیں۔ اس کی قیادت عدم اعتماد اور مفادات کا ٹکراؤ رکھتی ہے۔ لیکن نواز شریف کا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ الائنس نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بلا شبہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف بولنے میں مولانا تو نواز شریف سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ درحقیقت جے یو آئی تن تنہا بھی ملک کے اہم شہروں اور قصبوں کو بند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے ڈرایا بھی نہیں جاسکتا۔ ہونے والے مظاہروں کے اثر اور مزاحمت سے دیگر دھڑوں کو بھی شہ ملے گی اور مزاحمت کا دائرہ بڑھتا جائے گا۔ اس صورت میں ٹکراؤ ہونا لازمی ہے جس کے ناقابل تصور نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ طاقت کی دھمکی کارگر ہواور احتجاج کا سلسلہ رک جائے۔
آنے والے مہینوں میں اسٹبلشمنٹ یا تو سیاسی مفاہمت کو بڑھائے گی یا اس کا دروازہ مزید سختی سے بند کردے گی۔ ماضی میں جب وہ براہ راست مداخلت کی راہ اختیار کرتی تھی تو اسے امریکی معاشی اور فوجی امداد اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ اب چین وہ کردار ادا کرے گا۔ چنانچہ بات فیصلہ کن موڑ پرپہنچ چکی ہے۔